132

قاری عبداللطیف قریشی حفظہ اللہ ۔ مرکز اہلحدیث جی سکس کا اہم اثاثہ

مرکزاہلحدیث جی سکس اسلام آباد کا نہایت اہم اثاثہ

قاری عبداللطیف قریشی حفظہ اللہ تعالٰی
( مؤذن و مدرس: مرکز اہلحدیث جی سکس, اسلام آباد)

عرصہ 34 سال سے زائد مرکزاہلحدیث میں دین کی خدمت پہ مامور , قاری صاحب اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں وقت کی انتہائی پابند شخصیت ہیں. اپنے مخصوص کھنکھتے لہجے میں جب قاری صاحب اللہ اکبر کی صدا بلند کرتے ہیں تو عشاق, ادائیگی نماز کے لیے کشاں کشاں چلے آتے ہیں. قرب و جوار میں بچوں اور بچیوں کی ایک کثیر تعدادکو تعلیم ناظرہ قرآن سے بہرہ ور کرنے کا اعزاز بھی قاری صاحب کے پاس ہے. مرکزاہلحدیث کے عظیم قائد علامہ عبدالعزیزحنیف رحمہ اللہ کے نائب کے طور پہ قاری صاحب کو امامت کا شرف بھی حاصل ہے جس کے لیے جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے.

مؤذن کا مقام عالی شان۔ ۔ ۔
سردی ، گرمی اور ہر طرح کے حالات میں روزانہ 5 مرتبہ اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے والوں کو اگرچہ دنیا والے کچھ نہ سمجھیں، لیکن اللہ کے ہاں ان کا کیا مقام ہے ؟ ذرا ملاحظہ فرمائیں ۔ !

(1)عبدالرحمن مازنی اپنے والد عبداللہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں خبر دی :
أن أبا سعيدٍ الخدريَّ قال له : إني أراك تحبُّ الغنمَ والباديةَ ، فإذا كنتَ في غنمِكَ أو باديتِكَ ، فأذَّنتَ بالصلاةِ فارفعْ صوتَكَ بالنداءِ ،فإنَّه لا يَسْمَعُ مدى صوتِ المؤذنِ ، جنٌّ ولا إنسٌ ولا شيءٌ إلا شَهِدَ له يومَ القيامةِ .(صحيح البخاري:609)
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے۔ اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو کیونکہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔
اس حدیث کا آخری ٹکڑا ہے “قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” یعنی حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
فائدہ : اس حدیث میں مؤذن کے لئے قیامت میں گواہی کا ذکر ہے ۔ قیامت میں آدمی ایک ایک نیکی کے لئے پریشان ہوگا ایسے میں یہ گواہی آدمی کے لئے نجات کا راستہ ہموار کرے گی ۔اس لئے مؤذن بلند آواز سے اذان دے تاکہ دور تک جن وانس اور ساری چیزوں کو سنائی دے اور وہ گواہی کے کام آسکے ۔

(2) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
المؤذِّنُ يُغفرُ لَه مدَى صوتِه . ويستغفرُ لَه كلُّ رطبٍ ويابسٍ . وشاهدُ الصَّلاةِ يُكتبُ لَه خمسٌ وعشرونَ حسنةً ويُكفَّرُ له ما بينَهما(صحيح ابن ماجه:598)
ترجمہ: مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کی مغفرت کردی جاتی ہے، اور ہر خشک وتر اس کے لئے مغفرت طلب کرتا ہے اور اذان سن کر نماز میں حاضر ہونے والے کے لئے پچیس (25) نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور دو نمازوں کے درمیان کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
فائدہ : اس روایت میں ذکر ہے کہ ہرخشک وتر چیز گواہی دے گی گویا اس میں جن وانس ، حیوانات ، نباتات ،جمادات سبھی شامل ہیں یہ بات بخاری شریف کی مذکورہ بالا روایت سے مزید واضح ہوگئی۔

(3)معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
المُؤَذِّنون أطولُ الناسِ أعناقًا يومَ القيامةِ .(صحيح مسلم:387)
ترجمہ: مؤذنوں کی گردنیں قیامت کے دن سب سے زیادہ لمبی ہوں گی ۔
فائدہ : لمبی گردن کے کئی معانی ہیں ، کسی نے لمبی گردن کا مفہوم لیتے ہوئے کہااللہ کی رحمت کی طرف دیکھنے والا یعنی زیادہ اجر کا باعث۔ کسی نے اس کا حقیقی معنی مراد لیا ہے جب قیامت میں لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے تو ان کی گردن لمبی کردی جائے گی ۔ قاضی عیاض نے اعناق میں الف کو زیرکے ساتھ کہا ہے جس کا معنی جنت کی طرف جلدی جانے والا۔

(4)ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
لو يعلمُ الناسُ ما في النداءِ والصفِّ الأولِ ، ثم لم يجدُوا إلا أن يستهِموا عليه لاسْتهَموا عليه (صحيح البخاري:615)
ترجمہ: اگر لوگوں كو اذان اور پہلى صف كے اجروثواب كا علم ہو تو اور اگر انہيں اس كے ليے قرعہ اندازى بھى كرنا پڑے تو وہ قرعہ اندازى ضرور كريں۔
فائدہ : اس حدیث میں بھی اذان کے بے پناہ اجر کا ذکر ہے وہ اس طرح کہ اگر لوگوں کو اذان کا اجر معلوم ہوجائے اور اذان دینے کے لئے اپنا نام قرعہ اندازی سے نکالنا پڑے تو بھی ایسا کرنے میں پیچھے نہ ہٹیں۔

(5) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من أذَّنَ ثِنتَي عشرةَ سنةً ، وجبَتْ لَه الجنَّةُ ، وَكُتبَ لَه بتأذينِهِ في كلِّ يومٍ ستُّونَ حسَنةً ، ولِكُلِّ إقامةٍ ثلاثونَ حَسنةً(صحيح ابن ماجه: 600)
ترجمہ: جس شخص نے بارہ سال اذان دی، اس کے لئے جنت واجب ہوگئی اور اس کے لئے ہر روزکی اذان کے بدلے ساٹھ نیکیاں اور ہر اقامت پہ تیس نیکیاں لکھ دی گئیں۔
فائدہ : یہ حدیث بالکل واضح ہے جو بارہ سال تک اذان دے اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے ۔
کام بہت سہل ہے اور انعام بہت بڑا ہے ۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ اذان ہی سے لوگوں کو نماز کی خبر ملتی ہے اور لوگ کام کاج چھوڑکر مسجد کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جس کا ذکر اللہ تعالی نے جمعہ کے تعلق سے سورہ جمعہ میں کیا ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (الجمعہ: 9)
ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خریدوفروخت چھوڑدو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگرتم جانتے ہو۔
مزید برآں جو بارہ سال تک اذان دیتا رہے گویا اس سے بارہ سال کی نماز بھی کبھی نہیں چھوٹے گی وہ ہمیشہ تکبیراولی کے ساتھ نما زادا کرتا رہے گا بلکہ خود انہوں نے ہی اقامت کہی ہوگی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے ۔
مَن صلَّى للَّهِ أربعينَ يومًا في جماعةٍ يدرِكُ التَّكبيرةَ الأولَى كُتِبَ لَه براءتانِ : براءةٌ منَ النَّارِ ، وبراءةٌ منَ النِّفاقِ(صحيح الترمذي: 241)
ترجمہ: جس نے چاليس يوم تك نماز جماعت كے ساتھ ادا كى اور تكبير تحريمہ كے ساتھ ملا تو اس كے ليے دو قسم كى برات لكھى جاتى ہے، آگ سے برات، اور نفاق سے برات۔
اذان دینے والوں کے لئے نبی ﷺ نے بطور خاص دعا بھی کی ہے ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الإمامُ ضامنٌ والمؤذنُ مؤتمنٌ اللهم أرشدِ الأئمةَ واغفرْ للمؤذنِين.(صحيح أبي داود:517)
ترجمہ: امام ضامن اور ذمہ دار ہے اور مؤذن امین اور قابل اعتماد ہے ۔ اے اللہ ! اماموں کو ( صحیح علم و عمل ) کی توفیق دے اور مؤذنوں کو بخش دے ۔
گویا مؤذن کو اذان کی برکت سے بہت ساری نیکیاں کرنے کا موقع ملتا ہے ، نماز کے وقت سے پہلے مسجد میں حاضرہونا، مسجد کی صفائی وغیرہ کا اہتما م کرنا، اذان دے کر سنتوں کی ادائیگی پھر نماز کے لئے انتظارکرنا، نماز بعد بھی سب سے آخر میں جانا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا شدت سے انتظارکرنا، باجماعت نماز اداکرنا وغیرہ ۔ ان سب نیکوں کے لئے مؤذ ن کو گناہوں سے مغفرت مل جاتی ہے اور کیوں نہ ہو نبی ﷺ نے ان کے حق میں جو دعا فرمائی ہے ۔
اے اللہ ! تو ہمیں بھی ان لوگوں میں بنا جن کے لئے جنت واجب کردی جاتی ہے ۔ اللھم آمین

abdul-latif

132

قاری عبداللطیف قریشی حفظہ اللہ ۔ مرکز اہلحدیث جی سکس کا اہم اثاثہ

مرکزاہلحدیث جی سکس اسلام آباد کا نہایت اہم اثاثہ

قاری عبداللطیف قریشی حفظہ اللہ تعالٰی
( مؤذن و مدرس: مرکز اہلحدیث جی سکس, اسلام آباد)

عرصہ 34 سال سے زائد مرکزاہلحدیث میں دین کی خدمت پہ مامور , قاری صاحب اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں وقت کی انتہائی پابند شخصیت ہیں. اپنے مخصوص کھنکھتے لہجے میں جب قاری صاحب اللہ اکبر کی صدا بلند کرتے ہیں تو عشاق, ادائیگی نماز کے لیے کشاں کشاں چلے آتے ہیں. قرب و جوار میں بچوں اور بچیوں کی ایک کثیر تعدادکو تعلیم ناظرہ قرآن سے بہرہ ور کرنے کا اعزاز بھی قاری صاحب کے پاس ہے. مرکزاہلحدیث کے عظیم قائد علامہ عبدالعزیزحنیف رحمہ اللہ کے نائب کے طور پہ قاری صاحب کو امامت کا شرف بھی حاصل ہے جس کے لیے جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے.

مؤذن کا مقام عالی شان۔ ۔ ۔
سردی ، گرمی اور ہر طرح کے حالات میں روزانہ 5 مرتبہ اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے والوں کو اگرچہ دنیا والے کچھ نہ سمجھیں، لیکن اللہ کے ہاں ان کا کیا مقام ہے ؟ ذرا ملاحظہ فرمائیں ۔ !

(1)عبدالرحمن مازنی اپنے والد عبداللہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں خبر دی :
أن أبا سعيدٍ الخدريَّ قال له : إني أراك تحبُّ الغنمَ والباديةَ ، فإذا كنتَ في غنمِكَ أو باديتِكَ ، فأذَّنتَ بالصلاةِ فارفعْ صوتَكَ بالنداءِ ،فإنَّه لا يَسْمَعُ مدى صوتِ المؤذنِ ، جنٌّ ولا إنسٌ ولا شيءٌ إلا شَهِدَ له يومَ القيامةِ .(صحيح البخاري:609)
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے۔ اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو کیونکہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔
اس حدیث کا آخری ٹکڑا ہے “قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” یعنی حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
فائدہ : اس حدیث میں مؤذن کے لئے قیامت میں گواہی کا ذکر ہے ۔ قیامت میں آدمی ایک ایک نیکی کے لئے پریشان ہوگا ایسے میں یہ گواہی آدمی کے لئے نجات کا راستہ ہموار کرے گی ۔اس لئے مؤذن بلند آواز سے اذان دے تاکہ دور تک جن وانس اور ساری چیزوں کو سنائی دے اور وہ گواہی کے کام آسکے ۔

(2) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
المؤذِّنُ يُغفرُ لَه مدَى صوتِه . ويستغفرُ لَه كلُّ رطبٍ ويابسٍ . وشاهدُ الصَّلاةِ يُكتبُ لَه خمسٌ وعشرونَ حسنةً ويُكفَّرُ له ما بينَهما(صحيح ابن ماجه:598)
ترجمہ: مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کی مغفرت کردی جاتی ہے، اور ہر خشک وتر اس کے لئے مغفرت طلب کرتا ہے اور اذان سن کر نماز میں حاضر ہونے والے کے لئے پچیس (25) نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور دو نمازوں کے درمیان کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
فائدہ : اس روایت میں ذکر ہے کہ ہرخشک وتر چیز گواہی دے گی گویا اس میں جن وانس ، حیوانات ، نباتات ،جمادات سبھی شامل ہیں یہ بات بخاری شریف کی مذکورہ بالا روایت سے مزید واضح ہوگئی۔

(3)معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
المُؤَذِّنون أطولُ الناسِ أعناقًا يومَ القيامةِ .(صحيح مسلم:387)
ترجمہ: مؤذنوں کی گردنیں قیامت کے دن سب سے زیادہ لمبی ہوں گی ۔
فائدہ : لمبی گردن کے کئی معانی ہیں ، کسی نے لمبی گردن کا مفہوم لیتے ہوئے کہااللہ کی رحمت کی طرف دیکھنے والا یعنی زیادہ اجر کا باعث۔ کسی نے اس کا حقیقی معنی مراد لیا ہے جب قیامت میں لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے تو ان کی گردن لمبی کردی جائے گی ۔ قاضی عیاض نے اعناق میں الف کو زیرکے ساتھ کہا ہے جس کا معنی جنت کی طرف جلدی جانے والا۔

(4)ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
لو يعلمُ الناسُ ما في النداءِ والصفِّ الأولِ ، ثم لم يجدُوا إلا أن يستهِموا عليه لاسْتهَموا عليه (صحيح البخاري:615)
ترجمہ: اگر لوگوں كو اذان اور پہلى صف كے اجروثواب كا علم ہو تو اور اگر انہيں اس كے ليے قرعہ اندازى بھى كرنا پڑے تو وہ قرعہ اندازى ضرور كريں۔
فائدہ : اس حدیث میں بھی اذان کے بے پناہ اجر کا ذکر ہے وہ اس طرح کہ اگر لوگوں کو اذان کا اجر معلوم ہوجائے اور اذان دینے کے لئے اپنا نام قرعہ اندازی سے نکالنا پڑے تو بھی ایسا کرنے میں پیچھے نہ ہٹیں۔

(5) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من أذَّنَ ثِنتَي عشرةَ سنةً ، وجبَتْ لَه الجنَّةُ ، وَكُتبَ لَه بتأذينِهِ في كلِّ يومٍ ستُّونَ حسَنةً ، ولِكُلِّ إقامةٍ ثلاثونَ حَسنةً(صحيح ابن ماجه: 600)
ترجمہ: جس شخص نے بارہ سال اذان دی، اس کے لئے جنت واجب ہوگئی اور اس کے لئے ہر روزکی اذان کے بدلے ساٹھ نیکیاں اور ہر اقامت پہ تیس نیکیاں لکھ دی گئیں۔
فائدہ : یہ حدیث بالکل واضح ہے جو بارہ سال تک اذان دے اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے ۔
کام بہت سہل ہے اور انعام بہت بڑا ہے ۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ اذان ہی سے لوگوں کو نماز کی خبر ملتی ہے اور لوگ کام کاج چھوڑکر مسجد کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جس کا ذکر اللہ تعالی نے جمعہ کے تعلق سے سورہ جمعہ میں کیا ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (الجمعہ: 9)
ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خریدوفروخت چھوڑدو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگرتم جانتے ہو۔
مزید برآں جو بارہ سال تک اذان دیتا رہے گویا اس سے بارہ سال کی نماز بھی کبھی نہیں چھوٹے گی وہ ہمیشہ تکبیراولی کے ساتھ نما زادا کرتا رہے گا بلکہ خود انہوں نے ہی اقامت کہی ہوگی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے ۔
مَن صلَّى للَّهِ أربعينَ يومًا في جماعةٍ يدرِكُ التَّكبيرةَ الأولَى كُتِبَ لَه براءتانِ : براءةٌ منَ النَّارِ ، وبراءةٌ منَ النِّفاقِ(صحيح الترمذي: 241)
ترجمہ: جس نے چاليس يوم تك نماز جماعت كے ساتھ ادا كى اور تكبير تحريمہ كے ساتھ ملا تو اس كے ليے دو قسم كى برات لكھى جاتى ہے، آگ سے برات، اور نفاق سے برات۔
اذان دینے والوں کے لئے نبی ﷺ نے بطور خاص دعا بھی کی ہے ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الإمامُ ضامنٌ والمؤذنُ مؤتمنٌ اللهم أرشدِ الأئمةَ واغفرْ للمؤذنِين.(صحيح أبي داود:517)
ترجمہ: امام ضامن اور ذمہ دار ہے اور مؤذن امین اور قابل اعتماد ہے ۔ اے اللہ ! اماموں کو ( صحیح علم و عمل ) کی توفیق دے اور مؤذنوں کو بخش دے ۔
گویا مؤذن کو اذان کی برکت سے بہت ساری نیکیاں کرنے کا موقع ملتا ہے ، نماز کے وقت سے پہلے مسجد میں حاضرہونا، مسجد کی صفائی وغیرہ کا اہتما م کرنا، اذان دے کر سنتوں کی ادائیگی پھر نماز کے لئے انتظارکرنا، نماز بعد بھی سب سے آخر میں جانا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا شدت سے انتظارکرنا، باجماعت نماز اداکرنا وغیرہ ۔ ان سب نیکوں کے لئے مؤذ ن کو گناہوں سے مغفرت مل جاتی ہے اور کیوں نہ ہو نبی ﷺ نے ان کے حق میں جو دعا فرمائی ہے ۔
اے اللہ ! تو ہمیں بھی ان لوگوں میں بنا جن کے لئے جنت واجب کردی جاتی ہے ۔ اللھم آمین

abdul-latif

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں