دین میں غلو کیسا ہے؟ ۔۔ ڈاکٹر عزیز الرحمن حفظہ اللہ
0 تبصرے
دین میں غلو کیسا ہے؟ ۔۔ ڈاکٹر عزیز الرحمن حفظہ اللہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ۔ ’کہہ دو ، اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ایسی قوم کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے گمراہ ہوئے، انھوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا اور خود بھی سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔‘‘ (المائدۃ:۷۷)
نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’ اے لوگو! دین میں غلو نہ کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگ یقیناً دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔‘‘
(سنن ابن ماجہ: ۳۰۲۹، وسندہ صحیح، وصححہ ابن خزیمہ :۲۸۶۷وابن حبان ، الموارد:۱۰۱، والحاکم ۱؍۴۶۶، ووافقہ الذہبی)
حافظ ابن حزم نے دین میں غلو کرنے کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔(الکبائر للذہبی بتحقیق مشہور بن حسن ص۵۰۱ح ۴۵۷)
حد سے زیادتی اور تشدد کو غلو کہا جاتا ہے یعنی جو امور کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت نہیں ، ان میں سلف صالحین اور علمائے حق کے فہم کو چھوڑتے ہوئے ایسا راستہ اختیار کرنا جو سراسر شریعت کے خلاف ہو مثلاً عیسائیوں کا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہنا ، مردہ یا زندہ بزرگوں کی محبت میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے انھیں مقام الوہیت پر بٹھانا ، دوران حج جمرات کو سات کنکریاں مارنا مسنون ہیں مگر سات کی بجائے آٹھ یا دس کنکریاں مارنا ، ایسے مسئلے گھڑنا جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے مثلاً نما ز پاک جوتوں ساتھ اور بغیر جوتوں کے دونوں طرح صحیح ہے مگر بعض لوگوں کا جوتوں کے ساتھ ہی نماز کو ضروری سمجھنا وغیرہ، یہ سب غلو کی قسمیں ہیں ۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے غلو کو کبائر میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: مخلوق کے بارے میں غلو کرنا حتیٰ کے اس کے مقام سے تجاوز کیا جائے اور بعض اوقات یہ غلو گناہِ کبیرہ سے شرک کی طرف لے جاتا ہے۔(اعلام الموقعین ج۴ ص ۴۰۷)۔
210
شیئر کریں
دین میں غلو کیسا ہے؟ ۔۔ ڈاکٹر عزیز الرحمن حفظہ اللہ
0 تبصرے
دین میں غلو کیسا ہے؟ ۔۔ ڈاکٹر عزیز الرحمن حفظہ اللہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ۔ ’کہہ دو ، اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ایسی قوم کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے گمراہ ہوئے، انھوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا اور خود بھی سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔‘‘ (المائدۃ:۷۷)
نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’ اے لوگو! دین میں غلو نہ کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگ یقیناً دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔‘‘
(سنن ابن ماجہ: ۳۰۲۹، وسندہ صحیح، وصححہ ابن خزیمہ :۲۸۶۷وابن حبان ، الموارد:۱۰۱، والحاکم ۱؍۴۶۶، ووافقہ الذہبی)
حافظ ابن حزم نے دین میں غلو کرنے کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔(الکبائر للذہبی بتحقیق مشہور بن حسن ص۵۰۱ح ۴۵۷)
حد سے زیادتی اور تشدد کو غلو کہا جاتا ہے یعنی جو امور کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت نہیں ، ان میں سلف صالحین اور علمائے حق کے فہم کو چھوڑتے ہوئے ایسا راستہ اختیار کرنا جو سراسر شریعت کے خلاف ہو مثلاً عیسائیوں کا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہنا ، مردہ یا زندہ بزرگوں کی محبت میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے انھیں مقام الوہیت پر بٹھانا ، دوران حج جمرات کو سات کنکریاں مارنا مسنون ہیں مگر سات کی بجائے آٹھ یا دس کنکریاں مارنا ، ایسے مسئلے گھڑنا جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے مثلاً نما ز پاک جوتوں ساتھ اور بغیر جوتوں کے دونوں طرح صحیح ہے مگر بعض لوگوں کا جوتوں کے ساتھ ہی نماز کو ضروری سمجھنا وغیرہ، یہ سب غلو کی قسمیں ہیں ۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے غلو کو کبائر میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: مخلوق کے بارے میں غلو کرنا حتیٰ کے اس کے مقام سے تجاوز کیا جائے اور بعض اوقات یہ غلو گناہِ کبیرہ سے شرک کی طرف لے جاتا ہے۔(اعلام الموقعین ج۴ ص ۴۰۷)۔