یادیں از قلم: زبیدہ عزیز صاحبہ
مسجد سے وابستگی
میں نے ہوش سنبهالا تو ابو جی کو مسجد سے جڑا دیکها. مرکزی مسجد اہلحدیث اسلام آباد 1972میں تعمیر ہوئ تو وہ اس کے پہلے خطیب مقرر ہوئے.میاں فضل حق صاحب جو اس وقت مرکزی جمعیت اہل حدیث ہاکستان کے ناظم اعلی تهے کی خواہش اور اصرار پر ابو جی کراچی سے اسلام آباد آئے.اس سے قبل چند سال کراچی میں بحیثیت عربی ٹیچر پڑهایا اور کوکن سوسائٹی کی مسجد میں امامت جبکہ منگو پیر روڈ پر واقعہ ایک مسجد میں جمعہ کی خطابت کی.اسلام آباد میں جو ذمہ داری اللہ رب العالمین نے ان کے کندهوں پر ڈالی اسے ممکنہ حد تک خوش اسلوبی سے ادا کیا. 2004ء میں خطابت کے منصب سے ریٹائر یونے کے باوجود قلبی اور عملی طور پر مسجد ہی سے وابستہ رہے. مسجد سے ان کا رشتہ دل و جان کا رہا. گزشتہ سال ذاتی گهر میں منتقل ہو جانے کے باوجود روزانہ کا معمول تها کہ عصر سے قبل مسجد تشریف لے جاتے. عصر، مغرب اور عشاء مسجد میں ہی پڑه کر گهر جاتے. عصر سے مغرب تک مسجد میں موجود اپنے دفتر میں بیٹهتے.لوگوں سے ملاقات کرتے،ان کے مسائل اور دکه درد سنتے اور حتی الوسع ان کی مدد اور رہنمائ کرنے کی کوشش کرتے.وہ خاموش کام کرنے والے انسان تهے.اپنے کاموں کی تشہیر کرتے ہم نے انہیں نہیں دیکها. وفات کے بعد لوگ ان کی چهپی نیکیوں کے بارے میں ہمیں آگاہ کر رہے ہیں.
تقریبا آٹه سال رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں مسجد میں اعتکاف کیا.اس کے بعد صحت نے اجازت نہ دی.رمضان المبارک کی ستائیسویں رات، تکمیل قرآن پر بہترین انداز میں اللہ کے آگے دعا کرتے،اس کے سامنے گڑگڑاتے، خود بهی روتے اور دوسروں کو بهی رلاتے.ان کی اس رات کی دعاؤں میں سے اکثر کو اللہ رب العالمین شرف قبولیت عطا کرتے. گزشتہ پینتالیس سال میں دو سے تین مرتبہ جبکہ وہ بیمار ہوئے یا ملک سے باہر ہونے کے علاوہ دعا کروانے کی اس روایت کو قائم رکها.جب وہ دعا کروا کر فارغ ہوتے تو کئ بار مسجد میں موجود لوگ اس رات کے لیلة القدر ہونے کی علامات کا ذکر کرتے.
منبر و محراب سے ان کا تعلق بہت گہرا رہا. ان کے پسندیدہ ترین موضوعات توحید،آخرت ، کلمہ شہادت کی وضاحت ،اتباع سنت و اتباع منهج سلف تهے. رمضان کے خطبات خاص طور پر اس کے لیے مخصوص ہوتے. قرآن و سنت کی طرف دعوت مضوط اور ٹهوس انداز میں دیتے کہ لوگ اس منہج کو اختیار کر لینے میں آسانی محسوس کرتے. حق بات کہتے ہوئے کبهی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرتے.البتہ تمام مکاتب فکر کا احترام کرتے.کبهی اپنی رائے کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کرتے.دلیل سے بات بیان کر کے مخاطب کو چهوڑ دیتے.دین میں وسعت و اعتدال ان کا مزاج رہا.آسانی و یسر کے پہلو کو اختیار فرماتے اور کہتے اللہ نے اس امت کو امت اعتدال بنایا ہے.
مسجد میں نماز مغرب کے بعد وفات تک درس حدیث دیتے رہے جس کو بیٹے نے اب جاری رکها ہے. مشکوہ ان کی پسندیدہ ترین کتب حدیث میں سے رہی.چوتهی مرتبہ اس کا درس دے رہے تهے.اس کے علاوہ بلوغ المرام اور بعض دیگر کتب آحادیث کے دروس بهی دیے. ذاتی لائبریری کی اکثر کتب کئ سال قبل مسجد کی لائبریری میں ضم کر دیں.
مسجد کے خدام سے ہمیشہ ان کا بہت قلبی تعلق ریا.میرے بچپن سے لے کر آج تک جو لوگ مسجد کی خدمت پر متعین ہوئے وہ ابو جی پر جان چهڑکتے اور ابو جی بهی ان کا ہر ممکن خیال رکهتے. حاجی عبد الاحد بابا،میر اکبر بابا،حاجی محمد ابراہیم (بلتی)بابا ،محمد محسن،اکرام، یوسف صاحب، قاری عبد العزیز صاحب اور اشرف صاحب.یہ سب مسجد کے وہ ہیروز ہیں جنہوں نے اللہ کے گهر کی پاکیزگی و صفائ اور اس کے انتظام میں اپنی زندگیاں لگائیں.اللہ ان سب سے راضی ہو جائے.یہ سب ابو جی کے دل کے بہت قریب ہوتے .ان کی خوشی غمی کا جہاں تک ممکن ہوتا خیال رکهتے. ان کی ایک دعا یہ تهی کہ اللہ تعالی مسجد کے ساته میرا تعلق ہمیشہ قائم رکهے.اللہ نے ان کی یہ خواہش پوری فرما دی.جس منبر سے اللہ کی توحید کی آواز بلند کرتے تهے اسی پر خطبہ دیتے ہوئے آخری سفر پر روانہ ہوئے.اللہ مسجد کی اس خدمت کو ان سے قبول فرما لے. اللہ کے گهر کو جس محبت اور محنت سے انہوں نے آباد رکهنے کی کوشش کی ،اس کا بہترین اجر انہیں ملے.
{وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا}الجن : 18
یادیں از قلم: زبیدہ عزیز صاحبہ
مسجد سے وابستگی
میں نے ہوش سنبهالا تو ابو جی کو مسجد سے جڑا دیکها. مرکزی مسجد اہلحدیث اسلام آباد 1972میں تعمیر ہوئ تو وہ اس کے پہلے خطیب مقرر ہوئے.میاں فضل حق صاحب جو اس وقت مرکزی جمعیت اہل حدیث ہاکستان کے ناظم اعلی تهے کی خواہش اور اصرار پر ابو جی کراچی سے اسلام آباد آئے.اس سے قبل چند سال کراچی میں بحیثیت عربی ٹیچر پڑهایا اور کوکن سوسائٹی کی مسجد میں امامت جبکہ منگو پیر روڈ پر واقعہ ایک مسجد میں جمعہ کی خطابت کی.اسلام آباد میں جو ذمہ داری اللہ رب العالمین نے ان کے کندهوں پر ڈالی اسے ممکنہ حد تک خوش اسلوبی سے ادا کیا. 2004ء میں خطابت کے منصب سے ریٹائر یونے کے باوجود قلبی اور عملی طور پر مسجد ہی سے وابستہ رہے. مسجد سے ان کا رشتہ دل و جان کا رہا. گزشتہ سال ذاتی گهر میں منتقل ہو جانے کے باوجود روزانہ کا معمول تها کہ عصر سے قبل مسجد تشریف لے جاتے. عصر، مغرب اور عشاء مسجد میں ہی پڑه کر گهر جاتے. عصر سے مغرب تک مسجد میں موجود اپنے دفتر میں بیٹهتے.لوگوں سے ملاقات کرتے،ان کے مسائل اور دکه درد سنتے اور حتی الوسع ان کی مدد اور رہنمائ کرنے کی کوشش کرتے.وہ خاموش کام کرنے والے انسان تهے.اپنے کاموں کی تشہیر کرتے ہم نے انہیں نہیں دیکها. وفات کے بعد لوگ ان کی چهپی نیکیوں کے بارے میں ہمیں آگاہ کر رہے ہیں.
تقریبا آٹه سال رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں مسجد میں اعتکاف کیا.اس کے بعد صحت نے اجازت نہ دی.رمضان المبارک کی ستائیسویں رات، تکمیل قرآن پر بہترین انداز میں اللہ کے آگے دعا کرتے،اس کے سامنے گڑگڑاتے، خود بهی روتے اور دوسروں کو بهی رلاتے.ان کی اس رات کی دعاؤں میں سے اکثر کو اللہ رب العالمین شرف قبولیت عطا کرتے. گزشتہ پینتالیس سال میں دو سے تین مرتبہ جبکہ وہ بیمار ہوئے یا ملک سے باہر ہونے کے علاوہ دعا کروانے کی اس روایت کو قائم رکها.جب وہ دعا کروا کر فارغ ہوتے تو کئ بار مسجد میں موجود لوگ اس رات کے لیلة القدر ہونے کی علامات کا ذکر کرتے.
منبر و محراب سے ان کا تعلق بہت گہرا رہا. ان کے پسندیدہ ترین موضوعات توحید،آخرت ، کلمہ شہادت کی وضاحت ،اتباع سنت و اتباع منهج سلف تهے. رمضان کے خطبات خاص طور پر اس کے لیے مخصوص ہوتے. قرآن و سنت کی طرف دعوت مضوط اور ٹهوس انداز میں دیتے کہ لوگ اس منہج کو اختیار کر لینے میں آسانی محسوس کرتے. حق بات کہتے ہوئے کبهی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرتے.البتہ تمام مکاتب فکر کا احترام کرتے.کبهی اپنی رائے کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کرتے.دلیل سے بات بیان کر کے مخاطب کو چهوڑ دیتے.دین میں وسعت و اعتدال ان کا مزاج رہا.آسانی و یسر کے پہلو کو اختیار فرماتے اور کہتے اللہ نے اس امت کو امت اعتدال بنایا ہے.
مسجد میں نماز مغرب کے بعد وفات تک درس حدیث دیتے رہے جس کو بیٹے نے اب جاری رکها ہے. مشکوہ ان کی پسندیدہ ترین کتب حدیث میں سے رہی.چوتهی مرتبہ اس کا درس دے رہے تهے.اس کے علاوہ بلوغ المرام اور بعض دیگر کتب آحادیث کے دروس بهی دیے. ذاتی لائبریری کی اکثر کتب کئ سال قبل مسجد کی لائبریری میں ضم کر دیں.
مسجد کے خدام سے ہمیشہ ان کا بہت قلبی تعلق ریا.میرے بچپن سے لے کر آج تک جو لوگ مسجد کی خدمت پر متعین ہوئے وہ ابو جی پر جان چهڑکتے اور ابو جی بهی ان کا ہر ممکن خیال رکهتے. حاجی عبد الاحد بابا،میر اکبر بابا،حاجی محمد ابراہیم (بلتی)بابا ،محمد محسن،اکرام، یوسف صاحب، قاری عبد العزیز صاحب اور اشرف صاحب.یہ سب مسجد کے وہ ہیروز ہیں جنہوں نے اللہ کے گهر کی پاکیزگی و صفائ اور اس کے انتظام میں اپنی زندگیاں لگائیں.اللہ ان سب سے راضی ہو جائے.یہ سب ابو جی کے دل کے بہت قریب ہوتے .ان کی خوشی غمی کا جہاں تک ممکن ہوتا خیال رکهتے. ان کی ایک دعا یہ تهی کہ اللہ تعالی مسجد کے ساته میرا تعلق ہمیشہ قائم رکهے.اللہ نے ان کی یہ خواہش پوری فرما دی.جس منبر سے اللہ کی توحید کی آواز بلند کرتے تهے اسی پر خطبہ دیتے ہوئے آخری سفر پر روانہ ہوئے.اللہ مسجد کی اس خدمت کو ان سے قبول فرما لے. اللہ کے گهر کو جس محبت اور محنت سے انہوں نے آباد رکهنے کی کوشش کی ،اس کا بہترین اجر انہیں ملے.
{وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا}الجن : 18