166

معاملات کا سیدھا ہونا: علامہ عبدالعزیز حنیف رحمہ اللہ

یادیں از قلم: ڈاکٹر عزیز الرحمن حفظہ اللہ

معاملات کا سیدھا ہونا
ابو جی کی وفات کے بعد جہاں بہت سی چیزوں پر غور و فکر کرنے کا عمل جاری ہے وہاں میں مسلسل یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ ان کے تمام معاملات وفات سے قبل احسن انداز سے اور بخیرو خوبی اپنے منطقی انجام تک کیونکر پہنچے ہوئے تھے! یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ ابو اپنے تمام چھوٹے بڑے کام’ معاملات’ لین دین وغیرہ کو ہمارے علم کی حد تک نمٹا کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ بعض معمولی نوعیت کی چیزیں جن کو نہ بھی کیا جاتا تو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا’مثلا گھر کی دیکھ بھال کے کام اور مسجد کے دفتر کی تزئین و آرائش وغیرہ’ کو بھی ابو اپنی نگرانی میں مکمل کروا کر گئے۔ان کے کاغذات بھی پوری ترتیب کے ساتھ موجود و معلوم اور بہترین کیفیت میں ہیں۔ الحمدللہ۔
بہت سے شواہد ایسے سامنے آرہے ہیں جن سے احساس ہوتا ہے کہ کوئی ہاتھ پکڑ کر آخری چند ہفتوں میں ابو سے بہت سے کام کروا رہا تھا۔ظاہر ہے کہ وہ انسان تھے اور انہیں اپنی موت کے وقت کا علم نہیں تھا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ معروف معنوں میں ہمارے ابو کوئی بہت زیادہ پلاننگ اور مربوط منصوبہ بندی کے ساتھ لگی بندھی زندگی گذارنے والے شخص نہیں تھے۔ وہ آرام دہ اور پرسکون زندگی گزارتے رہے اور دوسروں کو بھی غیر ضروری نظم و ضبط کا قیدی نہیں بنایا۔لمبی چوڑی منصوبہ بندی اور پلاننگ نہ کرنے کے باوجود جس منظم طریقے سے وہ اس دنیا سے گئے وہ اپنی جگہ ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے۔
میں یہ سوچتا رہا کہ بظاہر زندگی کی پلاننگ نہ کرنے والے شخص کو اللہ رب العزت نے آخری دنوں میں کیونکر اتنے منظم طریقے سے تمام معاملات سیدھے کرنے کے بعد اپنے پاس بلایا؟مجھے جو بات اب تک سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ ابو ہمیشہ اللہ سے یہ دعا مانگتے تھے:اللهم لا سهل الا ماجعلته سهلا۔۔۔
اللہ نے ان کی اس دعا کو قبول کیا،ان کے لئے آسانی بنائی اور ان کے معاملات کو سیدھا اور سادہ بنا کر انجام تک پہنچایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ پر ان کا بے پناہ توکل وہ دوسری چیز ہے جس کی وجہ سے اللہ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر سارے کام کروائے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر بندہ اللہ سے لو لگا لے اور صحیح معنوں میں توکل کرے تو اللہ اس کی مدد کو آتے ہیں۔ایسے بندے کو کسی لمبی چوڑی پلاننگ کی ضرورت نہیں رہتی اور اللہ اپنے بندے کے کاموں کو آسان بنا دیتا ہے۔
ابو جی کی زندگی کے اختتام سے مجھے یہ ایک بہت بڑا سبق ملا ہے۔ ہم سب اپنے زندگیوں میں نظم و ضبط لانے اور اس کے نتیجے میں اپنے معاملات کو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس کے لئے شعوری کوشش اور محنت اچھی چیز ہے مگر مجھے احساس ہوا کہ اس سلسلے میں سب سے اہم بات اللہ پر توکل، حقوق العباد کی ادائیگی اور اللہ سے دعا ہے۔ یہ چیزیں شامل حال ہوجائیں تو آپ کو احساس بھی نہیں ہوتا اور آپ کا ہاتھ اللہ تھام لیتے ہیں اور آپ کے جملہ معاملات خودبخود سیدھے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ چیز ہم نے ابو کی زندگی میں بھی محسوس کی تھی کہ بعض اوقات پھنسے ہوئے کاموں کے لیے جب ابو کسی دفتر چلے جاتے یا کوئی کوشش کرتے تو اچانک سب کچھ ٹھیک ہونے لگ جاتا تھا۔ کبھی یہ خیال آتا تھا کہ لوگ ابو کی جان پہچان کی وجہ سے مدد کررہے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مدد کرنے والے کئی لوگوں کو ابو خود نہیں جانتے ہوتے تھے۔
آئیں ابو جی کی زندگی کے اس روشن پہلو کو عملی طور پر اپنا لیں تاکہ ہمارے معاملات بھی سیدھے ہوجائیں!

166

معاملات کا سیدھا ہونا: علامہ عبدالعزیز حنیف رحمہ اللہ

یادیں از قلم: ڈاکٹر عزیز الرحمن حفظہ اللہ

معاملات کا سیدھا ہونا
ابو جی کی وفات کے بعد جہاں بہت سی چیزوں پر غور و فکر کرنے کا عمل جاری ہے وہاں میں مسلسل یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ ان کے تمام معاملات وفات سے قبل احسن انداز سے اور بخیرو خوبی اپنے منطقی انجام تک کیونکر پہنچے ہوئے تھے! یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ ابو اپنے تمام چھوٹے بڑے کام’ معاملات’ لین دین وغیرہ کو ہمارے علم کی حد تک نمٹا کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ بعض معمولی نوعیت کی چیزیں جن کو نہ بھی کیا جاتا تو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا’مثلا گھر کی دیکھ بھال کے کام اور مسجد کے دفتر کی تزئین و آرائش وغیرہ’ کو بھی ابو اپنی نگرانی میں مکمل کروا کر گئے۔ان کے کاغذات بھی پوری ترتیب کے ساتھ موجود و معلوم اور بہترین کیفیت میں ہیں۔ الحمدللہ۔
بہت سے شواہد ایسے سامنے آرہے ہیں جن سے احساس ہوتا ہے کہ کوئی ہاتھ پکڑ کر آخری چند ہفتوں میں ابو سے بہت سے کام کروا رہا تھا۔ظاہر ہے کہ وہ انسان تھے اور انہیں اپنی موت کے وقت کا علم نہیں تھا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ معروف معنوں میں ہمارے ابو کوئی بہت زیادہ پلاننگ اور مربوط منصوبہ بندی کے ساتھ لگی بندھی زندگی گذارنے والے شخص نہیں تھے۔ وہ آرام دہ اور پرسکون زندگی گزارتے رہے اور دوسروں کو بھی غیر ضروری نظم و ضبط کا قیدی نہیں بنایا۔لمبی چوڑی منصوبہ بندی اور پلاننگ نہ کرنے کے باوجود جس منظم طریقے سے وہ اس دنیا سے گئے وہ اپنی جگہ ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے۔
میں یہ سوچتا رہا کہ بظاہر زندگی کی پلاننگ نہ کرنے والے شخص کو اللہ رب العزت نے آخری دنوں میں کیونکر اتنے منظم طریقے سے تمام معاملات سیدھے کرنے کے بعد اپنے پاس بلایا؟مجھے جو بات اب تک سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ ابو ہمیشہ اللہ سے یہ دعا مانگتے تھے:اللهم لا سهل الا ماجعلته سهلا۔۔۔
اللہ نے ان کی اس دعا کو قبول کیا،ان کے لئے آسانی بنائی اور ان کے معاملات کو سیدھا اور سادہ بنا کر انجام تک پہنچایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ پر ان کا بے پناہ توکل وہ دوسری چیز ہے جس کی وجہ سے اللہ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر سارے کام کروائے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر بندہ اللہ سے لو لگا لے اور صحیح معنوں میں توکل کرے تو اللہ اس کی مدد کو آتے ہیں۔ایسے بندے کو کسی لمبی چوڑی پلاننگ کی ضرورت نہیں رہتی اور اللہ اپنے بندے کے کاموں کو آسان بنا دیتا ہے۔
ابو جی کی زندگی کے اختتام سے مجھے یہ ایک بہت بڑا سبق ملا ہے۔ ہم سب اپنے زندگیوں میں نظم و ضبط لانے اور اس کے نتیجے میں اپنے معاملات کو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس کے لئے شعوری کوشش اور محنت اچھی چیز ہے مگر مجھے احساس ہوا کہ اس سلسلے میں سب سے اہم بات اللہ پر توکل، حقوق العباد کی ادائیگی اور اللہ سے دعا ہے۔ یہ چیزیں شامل حال ہوجائیں تو آپ کو احساس بھی نہیں ہوتا اور آپ کا ہاتھ اللہ تھام لیتے ہیں اور آپ کے جملہ معاملات خودبخود سیدھے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ چیز ہم نے ابو کی زندگی میں بھی محسوس کی تھی کہ بعض اوقات پھنسے ہوئے کاموں کے لیے جب ابو کسی دفتر چلے جاتے یا کوئی کوشش کرتے تو اچانک سب کچھ ٹھیک ہونے لگ جاتا تھا۔ کبھی یہ خیال آتا تھا کہ لوگ ابو کی جان پہچان کی وجہ سے مدد کررہے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مدد کرنے والے کئی لوگوں کو ابو خود نہیں جانتے ہوتے تھے۔
آئیں ابو جی کی زندگی کے اس روشن پہلو کو عملی طور پر اپنا لیں تاکہ ہمارے معاملات بھی سیدھے ہوجائیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں