223

وفات: علامہ عبدالعزیز حنیف رحمہ اللہ

یادیں از قلم۔ زبیدہ عزیز صاحبہ

وفات شہرکی گلیوں میں عید کا سماں ہے
ایک تم بهی کہیں سے چلے آؤ نہ بابا

میرے پیارے ابو جی 9ستمبر2016 ،بمطابق 8ذوالحجہ 1437ه کو جمعة المبارك کا خطبہ ارشاد فرما رہے تهے کہ پہلے خطبہ کے اختتام پر اچانک بیہوش ہو گئے.ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کا چیک اپ کرنے کے بعد ڈاکٹرز نے گهر بهیج دیا. گهر پہنچنے کے تهوڑی دیر بعد پیشانی پر پسینہ نمودار ہونے اور جسم ٹهنڈا ہونے کی وجہ سے بلڈ پریشر چیک کیا گیا جو بہت ہی کم سطح ہر تها.جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ ہسپتال لے جایا گیا مگر راستہ ہی میں آسمان کی طرف دیکهتے ہوئے”اللہ” کہا اور خالق حقیقی سے جا ملے.
وفات کے وقت کسی قسم کی گبهراہٹ اور تکلیف کے آثار نہ تهے. مطمئن اور پرسکون چہرہ تها. ایک دفعہ بهی ان کے منہ سے ہائے یا آہ نہیں سنی گئ. کسی قسم کی گفتگو بهی نہیں کی .خاموشی اور وقار جو ان کی ذات کا حصہ تها کے ساته دنیائے فانی سے کوچ کر گئے. للہ ما اخذ ولله ما اعطى
ابو جی کی وفات جہاں سب کے لیے ایک اچانک پیش آنے والا حادثہ تها وہاں اللہ رب العالمین کی طرف سے ان کے حق میں بہت بہترین اور خیر کا سبب تها. ذوالحج کا عشرہ، جمعة المبارک کا خوبصورت دن اور منبر پر اللہ کی طرف دعوت کا سب سے احسن کام. اللہ نے ان کی وفات کے لیے یہ سب جمع کر دیا. وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ وفات ساڑهے چار بجے کے لگ بهگ ہوئ جو عصر سے مغرب تک کی اس گهڑی کا حصہ تها جس میں مانگی گئ دعا رب تعالی قبول فرماتے ہیں.
وفات کی خبر ہر ایک کے لیے انتہائ غمناک تهی. اپنے پرائے کسی کو یقین نہ آرہا تها کہ ایسا ہو چکا ہے .سب ان کی اچانک مگر خوبصورت وفات پر حیران تهے. جنازہ میں ملک کے طول و عرض سے تمام مکاتب فکر کے علماء اور ہزاروں افراد نے شرکت کی.بعض لوگوں نے تو اسے اسلام آباد کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ قرار دیا. ان کی وفات پر لوگوں نے جس عقیدت اور محبت کا اظہار فرمایا اس کے لیے اللہ ان سب کو بہترین جزا عطا فرمائے.
ان کی وفات نے ثابت کر دیا کہ جیسی انسان کی زندگی ہوتی ہے ویسے ہی اس کی موت ہوتی ہے. حسن خاتمہ کے لیے حسن زندگی لازمی ہے. حسن اخلاق وہ چادو کی چهڑی یے جس سے لوگوں کے دل موہ لیے جاتے ہیں. اللہ کے بندوں سے محبت اور ان کا خیال رکهنا آپ کو ان کے لیے ایسا محبوب بنا دیتا یے کہ آپ ان کے دل میں بستے ہیں. جس رب کی خاطر آپ یہ سب کرتے ہیں اور انسانوں سے اس کے عوض کچه بهی نہیں طلب کرتے وہ رب العزت پهر وہ شان اور عزت عطا فرماتا ہے جو اس کے کم ہی بندوں کے حصے میں آتی ہے. انکی وفات کے بعد لوگ ان کا ذکر اللہ کے ولی کے طور پر کر ریے ہیں. یہ وہ گواہیاں ہیں جو اللہ کے ہاں قبول و منظور ہوں گی ان شاء اللہ. اللهم نور قبر لوالدى.اللهم اجعل قبرہ ریاض من ریاض الجنة.اللهم کن به رؤوفا رحیما یا خیر المسؤلین و یا خیر المعطین.
نوٹ: “یادیں “کے عنوان سے ابو جی کی زندگی سے اہم گوشے آپ سے شئیر کرنے کی کوشش کروں گی اس مقصدکے ساته کہ ہم ان کی زندگی سے کچه سیکه کر اپنی آخرت کی بہتر تیاری کر سکیں. یہ یادیں بہت ترتیب سے نہیں ہوں گی. جو مجهے یاد آتا جائے گا اسے لکهنے کی کوشش کروں گی اس دعا کہ ساته اللہ ہم بہن بهائیوں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے.

223

وفات: علامہ عبدالعزیز حنیف رحمہ اللہ

یادیں از قلم۔ زبیدہ عزیز صاحبہ

وفات شہرکی گلیوں میں عید کا سماں ہے
ایک تم بهی کہیں سے چلے آؤ نہ بابا

میرے پیارے ابو جی 9ستمبر2016 ،بمطابق 8ذوالحجہ 1437ه کو جمعة المبارك کا خطبہ ارشاد فرما رہے تهے کہ پہلے خطبہ کے اختتام پر اچانک بیہوش ہو گئے.ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کا چیک اپ کرنے کے بعد ڈاکٹرز نے گهر بهیج دیا. گهر پہنچنے کے تهوڑی دیر بعد پیشانی پر پسینہ نمودار ہونے اور جسم ٹهنڈا ہونے کی وجہ سے بلڈ پریشر چیک کیا گیا جو بہت ہی کم سطح ہر تها.جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ ہسپتال لے جایا گیا مگر راستہ ہی میں آسمان کی طرف دیکهتے ہوئے”اللہ” کہا اور خالق حقیقی سے جا ملے.
وفات کے وقت کسی قسم کی گبهراہٹ اور تکلیف کے آثار نہ تهے. مطمئن اور پرسکون چہرہ تها. ایک دفعہ بهی ان کے منہ سے ہائے یا آہ نہیں سنی گئ. کسی قسم کی گفتگو بهی نہیں کی .خاموشی اور وقار جو ان کی ذات کا حصہ تها کے ساته دنیائے فانی سے کوچ کر گئے. للہ ما اخذ ولله ما اعطى
ابو جی کی وفات جہاں سب کے لیے ایک اچانک پیش آنے والا حادثہ تها وہاں اللہ رب العالمین کی طرف سے ان کے حق میں بہت بہترین اور خیر کا سبب تها. ذوالحج کا عشرہ، جمعة المبارک کا خوبصورت دن اور منبر پر اللہ کی طرف دعوت کا سب سے احسن کام. اللہ نے ان کی وفات کے لیے یہ سب جمع کر دیا. وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ وفات ساڑهے چار بجے کے لگ بهگ ہوئ جو عصر سے مغرب تک کی اس گهڑی کا حصہ تها جس میں مانگی گئ دعا رب تعالی قبول فرماتے ہیں.
وفات کی خبر ہر ایک کے لیے انتہائ غمناک تهی. اپنے پرائے کسی کو یقین نہ آرہا تها کہ ایسا ہو چکا ہے .سب ان کی اچانک مگر خوبصورت وفات پر حیران تهے. جنازہ میں ملک کے طول و عرض سے تمام مکاتب فکر کے علماء اور ہزاروں افراد نے شرکت کی.بعض لوگوں نے تو اسے اسلام آباد کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ قرار دیا. ان کی وفات پر لوگوں نے جس عقیدت اور محبت کا اظہار فرمایا اس کے لیے اللہ ان سب کو بہترین جزا عطا فرمائے.
ان کی وفات نے ثابت کر دیا کہ جیسی انسان کی زندگی ہوتی ہے ویسے ہی اس کی موت ہوتی ہے. حسن خاتمہ کے لیے حسن زندگی لازمی ہے. حسن اخلاق وہ چادو کی چهڑی یے جس سے لوگوں کے دل موہ لیے جاتے ہیں. اللہ کے بندوں سے محبت اور ان کا خیال رکهنا آپ کو ان کے لیے ایسا محبوب بنا دیتا یے کہ آپ ان کے دل میں بستے ہیں. جس رب کی خاطر آپ یہ سب کرتے ہیں اور انسانوں سے اس کے عوض کچه بهی نہیں طلب کرتے وہ رب العزت پهر وہ شان اور عزت عطا فرماتا ہے جو اس کے کم ہی بندوں کے حصے میں آتی ہے. انکی وفات کے بعد لوگ ان کا ذکر اللہ کے ولی کے طور پر کر ریے ہیں. یہ وہ گواہیاں ہیں جو اللہ کے ہاں قبول و منظور ہوں گی ان شاء اللہ. اللهم نور قبر لوالدى.اللهم اجعل قبرہ ریاض من ریاض الجنة.اللهم کن به رؤوفا رحیما یا خیر المسؤلین و یا خیر المعطین.
نوٹ: “یادیں “کے عنوان سے ابو جی کی زندگی سے اہم گوشے آپ سے شئیر کرنے کی کوشش کروں گی اس مقصدکے ساته کہ ہم ان کی زندگی سے کچه سیکه کر اپنی آخرت کی بہتر تیاری کر سکیں. یہ یادیں بہت ترتیب سے نہیں ہوں گی. جو مجهے یاد آتا جائے گا اسے لکهنے کی کوشش کروں گی اس دعا کہ ساته اللہ ہم بہن بهائیوں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں