Skip to content
امام کعبہ فضیلۃ الشیخ خالد بن علی الغامدی حفظہ اللہ کا دورہ مرکز اہلحدیث (سیکٹر جی سکس )اسلام آباد
ترتیب: سید شہباز حسن
ذاتی تعارف
جناب خالد بن علی بن عبدان الابلجی الغامدی حفظہ اللہ تعالی بلحاظ عہدہ مسجد الحرام ، مکہ مکرمہ میں امام ہیں۔آپ کا تعلق سعودی عرب کی مغربی جانب سرات نامی پہاڑی سلسلے کے غامد علاقے میں واقع قبیلۃ بنی خیثم کے الحبشی قصبے سے ہے۔آپ سن 1388 ہجری کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم مکہ مکرمہ میں حاصل کی، سال 1406 ہجری میں ام القریٰ یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور دعوت واصول دین کالج کے شعبہ کتاب وسنت سے امتیازی درجے سے گریجویشن کیا اور 1416ہجری میں ام القریٰ یونیورسٹی کے قرآن کالج کے شعبہ قرآت سے ماسٹرزکیا، سن 1421 ہجری میں آپ نے ام القری یونیورسٹی کے مذکورہ کالج سے قرآتِ قرآن کریم اور قرآنی علوم پرڈاکٹریٹ کی، ڈاکٹریٹ کے لیے آپ نے تفسیرثعلبی پر تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔آپ کی غیرمعمولی صلاحیتوں اور گریجویشن کے امتحانات میں امتیازی درجات سے کامیابی پر ام القری یونیورسٹی کے ذمہ داران نے آپ کو دوران تعلیم ہی ام القری یونیورسٹی کے دعوت اور اصول دین کالج کے شعبہ قرآت میں لیکچرار کی حیثیت سے مقرر کردیا تھا۔تاہم آپ کا رسمی طور پرتقرر سن 1422 ہجری میں عمل آیا، اسی سال آپ شعبہ قرآت میں ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کے عہدے پرفائز ہوئے اور اس شعبے میں دو برس تک خدمات سرانجام دیں۔1423 ہجری میں وزیراسلامی امور اوردعوت وارشاد کے حکم پر آپ کو منی کی مسجد خیف میں رسمی طور پر امام مقرر کیا گیا، جبکہ سن 1426 سے آپ دعوت اور اصول دین کالج میں انڈرسیکریٹری کے منصب پر فائز ہیں۔
25 ذی قعدہ 1428 ہجری کا دن آپ کی زندگی کا وہ موڑ ہے، جہاں سے انھیں دنیا بھر کے مسلمانوں کی امامت اور انھیں خطاب کرنے اور مسجد الحرام میں اپنی مسحور کن اور رقت آمیز آوازمیں تلاوت کلام پاک سے مستفید کرنے کا موقع ملا، آپ کی اسی قابلیت کو مدنظر رکھتےہوئے، خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے آپ کوحرم مکی میں امام نامزد کیے جانے کا فرمان جاری کیا۔آپ حرم مکی میں امام وخطیب اور ام القری یونیورسٹی کے زیر انصرام کالج کے انڈرسیکریٹری کے عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف تحقیقی، تدریسی اصلاحی، ادارتی کمیٹیوں کے رکن بھی ہیں۔ اسی طرح آپ ام القری یونیورسٹی میں ماسٹرزاور ڈاکٹریٹ کے مقالات کے لیے گائیڈ کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔
حرمین شریفین کی سرزمین اسلام کا مرکز ہے، نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے مولد ومسکن ہونے کے ناطے تمام مسلمان اس سرزمین سے خاص عقیدت رکھتے ہیں۔ حرمینِ شریفین میں اہم ترین حیثیت مسجد ِحرام کو حاصل ہے جس میں کعبہ مشرفہ کے نام سے اللہ تعالیٰ کا مبارک گھر ایستادہ ہے۔ ہرمسلمان اپنے دل میں اس گھر کی زیارت کی تڑپ محسوس کرتا ہے، اور اسی غرض سے ہر سال لاکھوں مسلمان مکہ مکرمہ کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔آپ کی شخصیت میں عاجزی وانکساری، خشوع وخضوع، علم دوستی، اسلام سے والہانہ لگائو اور اْمت ِمسلمہ کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ کئی برس پر محیط آپ کی دعاوں میں آپ نے ہمیشہ اْمت ِمسلمہ کے زخمی جسد اورتکلیف میں مبتلا حصے کے دکھ درد میں جس طرح شرکت کی اور ان آلام ومصائب کے خاتمہ کے لئے ربّ ِکعبہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگی ہیں، اْس نے آپ کو اْمت کے غم خوار وغم گسار اور دلی ہمدرد کا تعارف عطا کر دیا ہے۔ آپ کے لہجے میں رِقت اور للہیت کے ساتھ روح وقلب کی وہ پاکیزگی خوب جھلکتی ہے جو ایک بندہ مومن بالخصوص حرمین کی امامت کی سعادت سے بہرہ مند ہونے والے مسلم قائد میں پائی جانا ضروری ہے۔علومِ اسلامیہ میں رسوخ کے ساتھ ساتھ زبان وبیان میں انتہادرجہ کی فصاحت و بلاغت سے بھی آپ کو حظ ِوافر نصیب ہوا ہے ۔ بزرگ علما سے علمی استفادہ، اکابر ِاسلام کی صحبت اور خداخوفی نے ان کی شخصیت میں ایک خاص حلاوت اور مٹھاس پیدا کردی ہے۔ آپ مغربی تہذیب و تمدن کے شدید ناقد اور قرآن وسنت کی بنیاد پر مسلمانوں کے اتحاد کے پرزور داعی ہیں۔ منہج سلف سے آپ کی محبت اور کتاب وسنت سے آپ کا گہرا تعلق ہے۔مذکورہ بالا اَوصاف کا مشاہدہ ہر وہ شخص کرسکتا ہے جسے چند لمحے بھی آپ کے ساتھ گزارنے یا آپ کی تلاوت وخطبات اور دعاؤں کو توجہ سے سننے کا موقع ملا ہو۔حرمین کی تمام قابل ذکر شخصیات پاکستانی عوام کے اسلام سے والہانہ تعلق کی قدر دان ہیں اور یوں بھی دنیا بھر میں پاکستانی عوام کو اسلام پر جان چھڑکنے والی اور متحرک وباصلاحیت قوم کے طور پر جانا جاتا ہے، اہل پاکستان کی اس والہانہ عقیدت کے باعث آپ بھی اہلیانِ پاکستان سے گہری محبت رکھتے ہیں۔
امام کعبۃ اللہ کا دورہ مرکز اہلحدیث جی سکس اسلام آباد
شہر اسلام آباد میں مرکز اہلحدیث،بلاشبہ اہلحدیثوں کاپہلا مرکز ہےجس کا قیام،اہلحدیث عوام کے لیے بالعموم اور اہلیان اسلام آباد کے لیے بالخصوص کسی نعمت سے کم نہیں ہے،یوٹیلیٹی سٹور،فیڈرل گورنمنٹ سکول اور آبپارہ آرکیڈ کے حصار میں واقع مرکز اہلحدیث کی پر شکوہ عمارت اپنی طرز تعمیر کا انوکھا شاہکار ہے،جہاں علامہ عبدالعزیز حنیف حفظہ اللہ کی زیر سرپرستی مرکزی جمعیت اہلحدیث کا بہترین نظم قائم ہے اور ان کی تبلیغی وتنظیمی کاوشوں سے آج اسلام آباد میں اہلحدیث مساجد اور مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے۔علامہ عبدالعزیز حنیف حفظہ اللہ،سینئر نائب امیر،مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان اور مولانا ابوبکر صدیق عزیزحفظہ اللہ، خطیب مرکز اہلحدیث سیکٹر جی سکس اسلام آباد کی خصوصی دعوت پر امام کعبہ فضیلۃ الشیخ خالد الغامدی حفظہ اللہ،مورخہ 29اپریل 2015کومرکز اہلحدیث سیکٹر جی سکس اسلام آباد تشریف لائے جہاں آپ نے نماز مغرب کی امامت اپنی خوش الحان آواز میں کروائی۔قبل ازیں استاذ مکرم قاری عبداللطیف قریشی حفظہ اللہ نے اپنے روایتی، دلکش انداز میں اذان مغرب پڑھی۔حرم مکہ کی فضاؤں کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے مرکز اہلحدیث کے ہر دلعزیز ،قاری محمد اسامہ شوکت حفظہ اللہ نے مکبر کے فرائض سرانجام دیئے۔ نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد آپ نے حاضرین مجلس کو مختصر پند و نصائح کیےجس کا اردو خلاصہ یہ ہے:-
حمدوثنا کے بعد ! امام کعبۃ اللہ شیخ خالد بن علی الغامدی حفظہ اللہ نے ارشاد فرمایاکہ سب سے پہلے تومیں اس مسجد کی انتظامیہ کا بالعموم، اور اس مسجد کے امیر کا بالخصوص، دل کی گہرائیوں سے بہت مشکور ہوں اورجس محبت اورمہمان نوازی کا آپ احباب نے اظہار کیا ہے،میں اس پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں جلدی سے اس تھوڑے سے وقت میں آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پر اثر حدیث پیش کرنا چاہتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن کی طرف بحیثیت معلم بنا کر بھیجا اور ان کو نصیحت کی اور نصیحت جب کسی تجربہ کارانسان کی طرف سے آئےجس کا زندگی میں بہت تجربہ ہوتو ہم اس نصیحت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور ایسی نصیحت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آئے اس نصیحت کا کیا کہنا !!!۔۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ سب سے پہلے تم اللہ کا تقوی اختیار کرنا جہاں تک بھی ہو اوردوسری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمائی کہ تم ہر گناہ یا غلطی ہو جانے کے بعد ضرورنیکی کرنا تاکہ وہ نیکی اس برائی کومٹا دے۔اورتیسری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمائی کہ تم لوگوں کے ساتھ خوبصورت اور بہترین اخلاق سے پیش آنا۔اس حدیث مبارکہ میں جو پہلی نصیحت کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جہاں پہ بھی رہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور تقویٰ کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے اور اللہ کے عذاب کے درمیان ایک حد قائم کرےاور یہ حد کیا ہے کہ ہر نیکی کے کام کو بجا لانااور ہر برائی کے کام کو چھوڑ دینا ہے جو انسان نیکی کے کام کو کرتا ہے اور برائی کو چھوڑ دیتاہےوہ اپنے اور اللہ کے عذاب کے درمیان ایک حد قائم کر لیتا ہے۔اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ تقوی کی تعریف بیان کرتےہوئے فرمایا کہ تقوی ٰ یہ ہے کہ انسان اللہ کا خوف اختیار کرے،جو قرآن میں اللہ نے نازل کیا ہے اس پر عمل کرے اور اس دنیا سے جانے والے دن کے لیے تیاری کرے۔ اور اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا تھا کہ تقویٰ کیا ہے توجوابا انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا تھا کہ کیا کبھی آپ ایسی جگہ سے گذرے ہیں،جہاں پر جھاڑیاں اور کانٹے ہوں؟حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ میں بہت دفعہ ایسی جگہ سے گذرا ہوں پھر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا کہ آپ وہاں پر کیا کرتے ہیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد کیا کہ میں وہاں اپنے کپڑوں کو سمیٹ لیتا ہوں اور اپنے آپ کو کانٹوں اورجھاڑیوں سے بچا نے کی کوشش کرتا ہوں۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا یہی تقویٰ ہے،انسان کی زندگی یہ اللہ کی طرف جانے کا ایک راستہ ہےاور اس راستے میں شبہات، شہوات، دنیا کی لذتیں،دنیاکی چکاچوند کر دینے والی ،انسان کو خیرہ کر دینے والی چاہتیں ،یہ سب کانٹے اور جھاڑیاں ہیں جو انسان کے دماغ کوالجھا کر رکھ دیتی ہیں پھر ان سب سےبچنااور اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا یہ حقیقت میں تقویٰ ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد آیات میں تقوی اختیار کرنے والے لوگوں کا ذکر بیان کیا ہے اور اللہ رب العزت نے ان کو جو انعامات عطا فرمانے ہیں وہ بیان کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے آسانیاں پیداکردیتے ہیں، اس سے محبت کرتے ہیں،اس کو بے حد و حساب اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتے ہیں جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا،اس کے تمام معاملات آسان کر دیئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اس بارے میں بیان کی جا سکتی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔ دوسری نصیحت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ تم ہر گناہ ہونے کے بعد نیکی کا کام کرو تاکہ وہ نیکی گناہ کو مٹا ڈالے ۔یہ بات سمجھ لیں کہ ہر انسان گناہ گار ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدم کا ہر بیٹاگناہ گار ہے اور سب سے بہتر گناہ گار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں،اس لئے گناہ ہوجانا یہ کوئی بات نہیں ہےلیکن گناہ کے اوپر اصرار کرنااورتوبہ استغفار نہ کرنا یہ اصل گناہ ہے۔گناہ کرنے کے بعد یہ سمجھ لینا کہ بس اب توبہ کا دروازہ بند ہوگیا،اب میرا کام ختم ہوگیا،اب مجھے توبہ استغفار نہیں کرنی چاہیے،یہ شیطان کا ایک بہت بڑا ہتھکنڈہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے یہ بات ثابت ہےکہ جب کوئی بندہ گنا ہ کرتا ہے تو بائیں طرف والا فرشتہ جو گناہ لکھتا ہے ،اسے اللہ تعالیٰ نے حکم دے رکھا ہے کہ جب بھی کوئی بندہ گناہ کرتا ہے تو چھے گھنٹوں تک وہ اپنے قلم کو نہیں اٹھاتا اور اس کے گناہ کو اس امید پر نہیں لکھتا کہ یہ چھے گھنٹے کے اندر توبہ واستغفار کر لے اگر وہ توبہ و استغفار کر لےتوگناہ لکھے جانے کا بجائے نیکی لکھ دی جاتی ہےلیکن اگر کوئی چھےگھنٹے میں بھی توبہ و استغفار نہ کرے اور اللہ کی طرف رجوع نہ کرے تو ایسے شخص کو جسے شیطان نے اغواء کر لیا ہو،یقیناپھر اس کے گناہ لکھے جاتے ہیں اور اللہ رب العزت نے فرمایا ہے ،اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے اور اللہ کی رحمت کی وسعت ہر چیز سے زیادہ ہے اس لئے اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا یہ بہت بڑا گناہ ہےاور اللہ تعالیٰ کو انسان کی توبہ اس قدر پسند ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ میں مذکور ہے کہ اللہ رب العزت ایک انسان کے توبہ سے اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ جیسے ایک انسان اپنے تمام ترسامان اور مال ومتاع کے ساتھ سفر کر رہا ہے اور صحرا میں کچھ دیر کے لیے بغرض آرام تھوڑی دیر کے لئے لیٹتا ہے،جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کا تمام متاع اورسامان جس سواری پر ہے ،وہ غائب ہے،اب اس کو موت سامنے نظر آ رہی ہے اوروہ مایوسی سے ایک طرف سایہ میں رکتا ہے،ایسے میں اس کی پھر آنکھ لگ جاتی ہے اورجیسے ہی آنکھ کھلتی ہےوہ دیکھتا ہے کہ اس کا سارا سامان سامنے سواری پرموجود ہے۔اس سواری اور اپنی زندگی کو دوبارہ سامنے دیکھ کر وہ اس قدر خوش ہوتا ہےکہ خوشی میں الفاظ بھی اس کے منہ سے الٹے نکلتے ہیں اور وہ یوں کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میں آپ کا رب ہوں اور آپ میرے بندے ہیں،جبکہ وہ کہنا یہ چاہتا ہےکہ اللہ تعالیٰ آپ میرے رب ہیں اور میں آپ کا بندہ ہوں لیکن خوشی اور فرحت کی وجہ سے وہ بات الٹی کہہ جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کو اس شخص سے زیادہ ایک بندہ کی توبہ پر خوشی اور فرحت محسوس ہوتی ہے۔قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں جو توبہ کرنے والوں کے مناقب میں بیان کی گئی ہیں۔اللہ تعالیٰ نےفرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سےمحبت فرماتے ہیں،اور یہ اہل ایمان سے اللہ کا مطالبہ ہے کہ اللہ سے توبہ واستغفار طلب کی جائے۔اوراللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ سےتوبہ و استغفار کرتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کے لئے آسمان سے برکتیں نازل کرتے ہیں،بارشیں نازل کرتےہیں،اموال دیئے جاتےہیں،بیٹےعطا کیے جاتے ہیں،باغوں کے اندر نہریں بہا دیتے ہیں اور پھلوں کو اگا دیتےہیں۔توبہ واستغفار کےبہت سے مناقب اور فضائل ہیں اور اس کا اندازہ اس بات سےلگایا جا سکتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو نبی اعظم ہیں،انبیاءکرام میں سب سے ممتاز مقام کے حامل ہیں،وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو مخاطب کرتےہوئے فرماتے ہیں کہ اے میرے صحابہ اللہ سے توبہ و استغفار کیا کرو! اللہ کی قسم میں اللہ سے دن بھر میں سو مرتبہ سے زیادہ توبہ واستغفار کرتا ہوں۔ اورتیسری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی کہ تم لوگوں کے ساتھ خوبصورت اور بہترین اخلاق سے پیش آنا۔ جو ایمان کے ساتھ مل کر حقوق اللہ و حقوق العباد اداکرنےکیلئےبہترین مرکب ہے، جسکی بنا پر درجات بلند اور گناہ ختم کردئے جاتے ہیں۔مؤمن اپنے اچھے اخلاق کی بنا پر دن میں نفلی روزہ اور راتوں کو نفلی قیام کرنے والوں کے درجات تک پہنچ جاتا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضى الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے ایک دن صحابہ کرام رضى الله عنهم سے پوچھا : ”کیا آپ لوگ جانتے ہیں مفلس کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: مفلس تو وہی ہے جس کے پاس مال ومتاع نہ ہو،آپ نے فرمایا: مفلس میری امت میں وہ ہے جو قیامت کے دن صوم وصلاة ، زکوٰة سب عبادات لے کرآئے گا لیکن کسی کو گالی دی ہوگی ، کسی کی آبروریزی کی ہوگی ، کسی کا مال کھایاہوگا، کسی کا خون بہایاہوگا ،کسی کو ماراپیٹا ہوگا ،لہذا کسی کواس کی فلاں نیکی دے دی جائے گی اور کسی کو فلاں نیکی دے دی جائے گی۔ اس طرح اس کی سب نیکیا ں دوسروں کے حقوق دینے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گی تب ان حقداروں کے گناہ اس پرلاد دئیے جائیں گے ،اور اس طرح وہ جہنم میں ڈال دیاجائے گالہذاہم سب کواپنے مالک حقیقی کو راضی کرنے کے لئے نہ صرف گناہوں سے توبہ و استغفار کرنی چاہیےاور ساتھ ہی ساتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا چاہیے تاکہ اللہ کی رحمتوں کا نزول ہم پر جاری رہے۔ وآخر دعونا ان الحمد للہ رب العالمین۔
پروگرام کے آخر میں مولانا ابوبکر صدیق عزیز حفظہ اللہ نے شرکاء مجلس کے جانب سے امام کعبۃ اللہ کامرکز اہلحدیث آمد پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ اداکیا اوراس عزم کا اعادہ کیا کہ جو نصیحت بیان کی گئی ہے اس پر عمل کرنے کی بھرپورکوشش کی جائے گی اور یقینااہل علم ہمیشہ اچھی باتوں کی تلقین کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو تعلیمات قرآن و سنت کو سننے، سمجھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے۔ آمین
XXXXXXXX
امام کعبہ فضیلۃ الشیخ خالد بن علی الغامدی حفظہ اللہ کا دورہ مرکز اہلحدیث (سیکٹر جی سکس )اسلام آباد
ترتیب: سید شہباز حسن
ذاتی تعارف
جناب خالد بن علی بن عبدان الابلجی الغامدی حفظہ اللہ تعالی بلحاظ عہدہ مسجد الحرام ، مکہ مکرمہ میں امام ہیں۔آپ کا تعلق سعودی عرب کی مغربی جانب سرات نامی پہاڑی سلسلے کے غامد علاقے میں واقع قبیلۃ بنی خیثم کے الحبشی قصبے سے ہے۔آپ سن 1388 ہجری کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم مکہ مکرمہ میں حاصل کی، سال 1406 ہجری میں ام القریٰ یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور دعوت واصول دین کالج کے شعبہ کتاب وسنت سے امتیازی درجے سے گریجویشن کیا اور 1416ہجری میں ام القریٰ یونیورسٹی کے قرآن کالج کے شعبہ قرآت سے ماسٹرزکیا، سن 1421 ہجری میں آپ نے ام القری یونیورسٹی کے مذکورہ کالج سے قرآتِ قرآن کریم اور قرآنی علوم پرڈاکٹریٹ کی، ڈاکٹریٹ کے لیے آپ نے تفسیرثعلبی پر تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔آپ کی غیرمعمولی صلاحیتوں اور گریجویشن کے امتحانات میں امتیازی درجات سے کامیابی پر ام القری یونیورسٹی کے ذمہ داران نے آپ کو دوران تعلیم ہی ام القری یونیورسٹی کے دعوت اور اصول دین کالج کے شعبہ قرآت میں لیکچرار کی حیثیت سے مقرر کردیا تھا۔تاہم آپ کا رسمی طور پرتقرر سن 1422 ہجری میں عمل آیا، اسی سال آپ شعبہ قرآت میں ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کے عہدے پرفائز ہوئے اور اس شعبے میں دو برس تک خدمات سرانجام دیں۔1423 ہجری میں وزیراسلامی امور اوردعوت وارشاد کے حکم پر آپ کو منی کی مسجد خیف میں رسمی طور پر امام مقرر کیا گیا، جبکہ سن 1426 سے آپ دعوت اور اصول دین کالج میں انڈرسیکریٹری کے منصب پر فائز ہیں۔
25 ذی قعدہ 1428 ہجری کا دن آپ کی زندگی کا وہ موڑ ہے، جہاں سے انھیں دنیا بھر کے مسلمانوں کی امامت اور انھیں خطاب کرنے اور مسجد الحرام میں اپنی مسحور کن اور رقت آمیز آوازمیں تلاوت کلام پاک سے مستفید کرنے کا موقع ملا، آپ کی اسی قابلیت کو مدنظر رکھتےہوئے، خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے آپ کوحرم مکی میں امام نامزد کیے جانے کا فرمان جاری کیا۔آپ حرم مکی میں امام وخطیب اور ام القری یونیورسٹی کے زیر انصرام کالج کے انڈرسیکریٹری کے عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف تحقیقی، تدریسی اصلاحی، ادارتی کمیٹیوں کے رکن بھی ہیں۔ اسی طرح آپ ام القری یونیورسٹی میں ماسٹرزاور ڈاکٹریٹ کے مقالات کے لیے گائیڈ کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔
حرمین شریفین کی سرزمین اسلام کا مرکز ہے، نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے مولد ومسکن ہونے کے ناطے تمام مسلمان اس سرزمین سے خاص عقیدت رکھتے ہیں۔ حرمینِ شریفین میں اہم ترین حیثیت مسجد ِحرام کو حاصل ہے جس میں کعبہ مشرفہ کے نام سے اللہ تعالیٰ کا مبارک گھر ایستادہ ہے۔ ہرمسلمان اپنے دل میں اس گھر کی زیارت کی تڑپ محسوس کرتا ہے، اور اسی غرض سے ہر سال لاکھوں مسلمان مکہ مکرمہ کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔آپ کی شخصیت میں عاجزی وانکساری، خشوع وخضوع، علم دوستی، اسلام سے والہانہ لگائو اور اْمت ِمسلمہ کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ کئی برس پر محیط آپ کی دعاوں میں آپ نے ہمیشہ اْمت ِمسلمہ کے زخمی جسد اورتکلیف میں مبتلا حصے کے دکھ درد میں جس طرح شرکت کی اور ان آلام ومصائب کے خاتمہ کے لئے ربّ ِکعبہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگی ہیں، اْس نے آپ کو اْمت کے غم خوار وغم گسار اور دلی ہمدرد کا تعارف عطا کر دیا ہے۔ آپ کے لہجے میں رِقت اور للہیت کے ساتھ روح وقلب کی وہ پاکیزگی خوب جھلکتی ہے جو ایک بندہ مومن بالخصوص حرمین کی امامت کی سعادت سے بہرہ مند ہونے والے مسلم قائد میں پائی جانا ضروری ہے۔علومِ اسلامیہ میں رسوخ کے ساتھ ساتھ زبان وبیان میں انتہادرجہ کی فصاحت و بلاغت سے بھی آپ کو حظ ِوافر نصیب ہوا ہے ۔ بزرگ علما سے علمی استفادہ، اکابر ِاسلام کی صحبت اور خداخوفی نے ان کی شخصیت میں ایک خاص حلاوت اور مٹھاس پیدا کردی ہے۔ آپ مغربی تہذیب و تمدن کے شدید ناقد اور قرآن وسنت کی بنیاد پر مسلمانوں کے اتحاد کے پرزور داعی ہیں۔ منہج سلف سے آپ کی محبت اور کتاب وسنت سے آپ کا گہرا تعلق ہے۔مذکورہ بالا اَوصاف کا مشاہدہ ہر وہ شخص کرسکتا ہے جسے چند لمحے بھی آپ کے ساتھ گزارنے یا آپ کی تلاوت وخطبات اور دعاؤں کو توجہ سے سننے کا موقع ملا ہو۔حرمین کی تمام قابل ذکر شخصیات پاکستانی عوام کے اسلام سے والہانہ تعلق کی قدر دان ہیں اور یوں بھی دنیا بھر میں پاکستانی عوام کو اسلام پر جان چھڑکنے والی اور متحرک وباصلاحیت قوم کے طور پر جانا جاتا ہے، اہل پاکستان کی اس والہانہ عقیدت کے باعث آپ بھی اہلیانِ پاکستان سے گہری محبت رکھتے ہیں۔
امام کعبۃ اللہ کا دورہ مرکز اہلحدیث جی سکس اسلام آباد
شہر اسلام آباد میں مرکز اہلحدیث،بلاشبہ اہلحدیثوں کاپہلا مرکز ہےجس کا قیام،اہلحدیث عوام کے لیے بالعموم اور اہلیان اسلام آباد کے لیے بالخصوص کسی نعمت سے کم نہیں ہے،یوٹیلیٹی سٹور،فیڈرل گورنمنٹ سکول اور آبپارہ آرکیڈ کے حصار میں واقع مرکز اہلحدیث کی پر شکوہ عمارت اپنی طرز تعمیر کا انوکھا شاہکار ہے،جہاں علامہ عبدالعزیز حنیف حفظہ اللہ کی زیر سرپرستی مرکزی جمعیت اہلحدیث کا بہترین نظم قائم ہے اور ان کی تبلیغی وتنظیمی کاوشوں سے آج اسلام آباد میں اہلحدیث مساجد اور مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے۔علامہ عبدالعزیز حنیف حفظہ اللہ،سینئر نائب امیر،مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان اور مولانا ابوبکر صدیق عزیزحفظہ اللہ، خطیب مرکز اہلحدیث سیکٹر جی سکس اسلام آباد کی خصوصی دعوت پر امام کعبہ فضیلۃ الشیخ خالد الغامدی حفظہ اللہ،مورخہ 29اپریل 2015کومرکز اہلحدیث سیکٹر جی سکس اسلام آباد تشریف لائے جہاں آپ نے نماز مغرب کی امامت اپنی خوش الحان آواز میں کروائی۔قبل ازیں استاذ مکرم قاری عبداللطیف قریشی حفظہ اللہ نے اپنے روایتی، دلکش انداز میں اذان مغرب پڑھی۔حرم مکہ کی فضاؤں کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے مرکز اہلحدیث کے ہر دلعزیز ،قاری محمد اسامہ شوکت حفظہ اللہ نے مکبر کے فرائض سرانجام دیئے۔ نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد آپ نے حاضرین مجلس کو مختصر پند و نصائح کیےجس کا اردو خلاصہ یہ ہے:-
حمدوثنا کے بعد ! امام کعبۃ اللہ شیخ خالد بن علی الغامدی حفظہ اللہ نے ارشاد فرمایاکہ سب سے پہلے تومیں اس مسجد کی انتظامیہ کا بالعموم، اور اس مسجد کے امیر کا بالخصوص، دل کی گہرائیوں سے بہت مشکور ہوں اورجس محبت اورمہمان نوازی کا آپ احباب نے اظہار کیا ہے،میں اس پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں جلدی سے اس تھوڑے سے وقت میں آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پر اثر حدیث پیش کرنا چاہتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن کی طرف بحیثیت معلم بنا کر بھیجا اور ان کو نصیحت کی اور نصیحت جب کسی تجربہ کارانسان کی طرف سے آئےجس کا زندگی میں بہت تجربہ ہوتو ہم اس نصیحت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور ایسی نصیحت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آئے اس نصیحت کا کیا کہنا !!!۔۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ سب سے پہلے تم اللہ کا تقوی اختیار کرنا جہاں تک بھی ہو اوردوسری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمائی کہ تم ہر گناہ یا غلطی ہو جانے کے بعد ضرورنیکی کرنا تاکہ وہ نیکی اس برائی کومٹا دے۔اورتیسری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمائی کہ تم لوگوں کے ساتھ خوبصورت اور بہترین اخلاق سے پیش آنا۔اس حدیث مبارکہ میں جو پہلی نصیحت کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جہاں پہ بھی رہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور تقویٰ کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے اور اللہ کے عذاب کے درمیان ایک حد قائم کرےاور یہ حد کیا ہے کہ ہر نیکی کے کام کو بجا لانااور ہر برائی کے کام کو چھوڑ دینا ہے جو انسان نیکی کے کام کو کرتا ہے اور برائی کو چھوڑ دیتاہےوہ اپنے اور اللہ کے عذاب کے درمیان ایک حد قائم کر لیتا ہے۔اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ تقوی کی تعریف بیان کرتےہوئے فرمایا کہ تقوی ٰ یہ ہے کہ انسان اللہ کا خوف اختیار کرے،جو قرآن میں اللہ نے نازل کیا ہے اس پر عمل کرے اور اس دنیا سے جانے والے دن کے لیے تیاری کرے۔ اور اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا تھا کہ تقویٰ کیا ہے توجوابا انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا تھا کہ کیا کبھی آپ ایسی جگہ سے گذرے ہیں،جہاں پر جھاڑیاں اور کانٹے ہوں؟حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ میں بہت دفعہ ایسی جگہ سے گذرا ہوں پھر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا کہ آپ وہاں پر کیا کرتے ہیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد کیا کہ میں وہاں اپنے کپڑوں کو سمیٹ لیتا ہوں اور اپنے آپ کو کانٹوں اورجھاڑیوں سے بچا نے کی کوشش کرتا ہوں۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا یہی تقویٰ ہے،انسان کی زندگی یہ اللہ کی طرف جانے کا ایک راستہ ہےاور اس راستے میں شبہات، شہوات، دنیا کی لذتیں،دنیاکی چکاچوند کر دینے والی ،انسان کو خیرہ کر دینے والی چاہتیں ،یہ سب کانٹے اور جھاڑیاں ہیں جو انسان کے دماغ کوالجھا کر رکھ دیتی ہیں پھر ان سب سےبچنااور اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا یہ حقیقت میں تقویٰ ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد آیات میں تقوی اختیار کرنے والے لوگوں کا ذکر بیان کیا ہے اور اللہ رب العزت نے ان کو جو انعامات عطا فرمانے ہیں وہ بیان کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے آسانیاں پیداکردیتے ہیں، اس سے محبت کرتے ہیں،اس کو بے حد و حساب اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتے ہیں جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا،اس کے تمام معاملات آسان کر دیئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اس بارے میں بیان کی جا سکتی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔ دوسری نصیحت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ تم ہر گناہ ہونے کے بعد نیکی کا کام کرو تاکہ وہ نیکی گناہ کو مٹا ڈالے ۔یہ بات سمجھ لیں کہ ہر انسان گناہ گار ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدم کا ہر بیٹاگناہ گار ہے اور سب سے بہتر گناہ گار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں،اس لئے گناہ ہوجانا یہ کوئی بات نہیں ہےلیکن گناہ کے اوپر اصرار کرنااورتوبہ استغفار نہ کرنا یہ اصل گناہ ہے۔گناہ کرنے کے بعد یہ سمجھ لینا کہ بس اب توبہ کا دروازہ بند ہوگیا،اب میرا کام ختم ہوگیا،اب مجھے توبہ استغفار نہیں کرنی چاہیے،یہ شیطان کا ایک بہت بڑا ہتھکنڈہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے یہ بات ثابت ہےکہ جب کوئی بندہ گنا ہ کرتا ہے تو بائیں طرف والا فرشتہ جو گناہ لکھتا ہے ،اسے اللہ تعالیٰ نے حکم دے رکھا ہے کہ جب بھی کوئی بندہ گناہ کرتا ہے تو چھے گھنٹوں تک وہ اپنے قلم کو نہیں اٹھاتا اور اس کے گناہ کو اس امید پر نہیں لکھتا کہ یہ چھے گھنٹے کے اندر توبہ واستغفار کر لے اگر وہ توبہ و استغفار کر لےتوگناہ لکھے جانے کا بجائے نیکی لکھ دی جاتی ہےلیکن اگر کوئی چھےگھنٹے میں بھی توبہ و استغفار نہ کرے اور اللہ کی طرف رجوع نہ کرے تو ایسے شخص کو جسے شیطان نے اغواء کر لیا ہو،یقیناپھر اس کے گناہ لکھے جاتے ہیں اور اللہ رب العزت نے فرمایا ہے ،اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے اور اللہ کی رحمت کی وسعت ہر چیز سے زیادہ ہے اس لئے اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا یہ بہت بڑا گناہ ہےاور اللہ تعالیٰ کو انسان کی توبہ اس قدر پسند ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ میں مذکور ہے کہ اللہ رب العزت ایک انسان کے توبہ سے اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ جیسے ایک انسان اپنے تمام ترسامان اور مال ومتاع کے ساتھ سفر کر رہا ہے اور صحرا میں کچھ دیر کے لیے بغرض آرام تھوڑی دیر کے لئے لیٹتا ہے،جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کا تمام متاع اورسامان جس سواری پر ہے ،وہ غائب ہے،اب اس کو موت سامنے نظر آ رہی ہے اوروہ مایوسی سے ایک طرف سایہ میں رکتا ہے،ایسے میں اس کی پھر آنکھ لگ جاتی ہے اورجیسے ہی آنکھ کھلتی ہےوہ دیکھتا ہے کہ اس کا سارا سامان سامنے سواری پرموجود ہے۔اس سواری اور اپنی زندگی کو دوبارہ سامنے دیکھ کر وہ اس قدر خوش ہوتا ہےکہ خوشی میں الفاظ بھی اس کے منہ سے الٹے نکلتے ہیں اور وہ یوں کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میں آپ کا رب ہوں اور آپ میرے بندے ہیں،جبکہ وہ کہنا یہ چاہتا ہےکہ اللہ تعالیٰ آپ میرے رب ہیں اور میں آپ کا بندہ ہوں لیکن خوشی اور فرحت کی وجہ سے وہ بات الٹی کہہ جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کو اس شخص سے زیادہ ایک بندہ کی توبہ پر خوشی اور فرحت محسوس ہوتی ہے۔قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں جو توبہ کرنے والوں کے مناقب میں بیان کی گئی ہیں۔اللہ تعالیٰ نےفرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سےمحبت فرماتے ہیں،اور یہ اہل ایمان سے اللہ کا مطالبہ ہے کہ اللہ سے توبہ واستغفار طلب کی جائے۔اوراللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ سےتوبہ و استغفار کرتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کے لئے آسمان سے برکتیں نازل کرتے ہیں،بارشیں نازل کرتےہیں،اموال دیئے جاتےہیں،بیٹےعطا کیے جاتے ہیں،باغوں کے اندر نہریں بہا دیتے ہیں اور پھلوں کو اگا دیتےہیں۔توبہ واستغفار کےبہت سے مناقب اور فضائل ہیں اور اس کا اندازہ اس بات سےلگایا جا سکتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو نبی اعظم ہیں،انبیاءکرام میں سب سے ممتاز مقام کے حامل ہیں،وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو مخاطب کرتےہوئے فرماتے ہیں کہ اے میرے صحابہ اللہ سے توبہ و استغفار کیا کرو! اللہ کی قسم میں اللہ سے دن بھر میں سو مرتبہ سے زیادہ توبہ واستغفار کرتا ہوں۔ اورتیسری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی کہ تم لوگوں کے ساتھ خوبصورت اور بہترین اخلاق سے پیش آنا۔ جو ایمان کے ساتھ مل کر حقوق اللہ و حقوق العباد اداکرنےکیلئےبہترین مرکب ہے، جسکی بنا پر درجات بلند اور گناہ ختم کردئے جاتے ہیں۔مؤمن اپنے اچھے اخلاق کی بنا پر دن میں نفلی روزہ اور راتوں کو نفلی قیام کرنے والوں کے درجات تک پہنچ جاتا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضى الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے ایک دن صحابہ کرام رضى الله عنهم سے پوچھا : ”کیا آپ لوگ جانتے ہیں مفلس کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: مفلس تو وہی ہے جس کے پاس مال ومتاع نہ ہو،آپ نے فرمایا: مفلس میری امت میں وہ ہے جو قیامت کے دن صوم وصلاة ، زکوٰة سب عبادات لے کرآئے گا لیکن کسی کو گالی دی ہوگی ، کسی کی آبروریزی کی ہوگی ، کسی کا مال کھایاہوگا، کسی کا خون بہایاہوگا ،کسی کو ماراپیٹا ہوگا ،لہذا کسی کواس کی فلاں نیکی دے دی جائے گی اور کسی کو فلاں نیکی دے دی جائے گی۔ اس طرح اس کی سب نیکیا ں دوسروں کے حقوق دینے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گی تب ان حقداروں کے گناہ اس پرلاد دئیے جائیں گے ،اور اس طرح وہ جہنم میں ڈال دیاجائے گالہذاہم سب کواپنے مالک حقیقی کو راضی کرنے کے لئے نہ صرف گناہوں سے توبہ و استغفار کرنی چاہیےاور ساتھ ہی ساتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا چاہیے تاکہ اللہ کی رحمتوں کا نزول ہم پر جاری رہے۔ وآخر دعونا ان الحمد للہ رب العالمین۔
پروگرام کے آخر میں مولانا ابوبکر صدیق عزیز حفظہ اللہ نے شرکاء مجلس کے جانب سے امام کعبۃ اللہ کامرکز اہلحدیث آمد پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ اداکیا اوراس عزم کا اعادہ کیا کہ جو نصیحت بیان کی گئی ہے اس پر عمل کرنے کی بھرپورکوشش کی جائے گی اور یقینااہل علم ہمیشہ اچھی باتوں کی تلقین کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو تعلیمات قرآن و سنت کو سننے، سمجھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے۔ آمین
XXXXXXXX
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں